اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || الجزیرہ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے 8 اکتوبر بروز جمعہ غزہ میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد کہا: "ہمیں خوشی ہے کہ غزہ کے باشندے اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں اور فلسطینیوں کے چہروں پر خوشی لوٹ آئی ہے۔ ہم نے اس مرحلے تک پہنچنے اور غزہ میں جنگ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی پوری کوشش کی ہے۔"
انہوں نے دعویٰ کیا: "ہم غزہ معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد اور انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسرائیل دوبارہ غلطیوں سے دوچار نہیں ہوگا۔ ہم اسرائیل کی جانب سے غزہ معاہدے کی عدم پابندی، کے خلاف کھڑے ہوں گے اور غزہ کی تعمیر نو کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔"


آخر میں، ترک صدر نے مزید کہا: "میں فلسطین خاص طور پر غزہ میں مقاومت کے تمام ارکان کو سلام پیش کرتا ہوں، ہر ایک کو غزہ میں جنگ بندی جاری رکھنے کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کی فضا میں واپسی کی 'بہت بھاری قیمت' ادا کرنا پڑے گی۔"
ان بیانات میں سب سے اہم نکتہ (اس مضمون کے نقطہ نظر سے) اس آخری جملے میں ہے: یہ "بہت بھاری قیمت" کون ادا کرے گا؟ اگر اردوان کا مطلب صہیونی ریاست ہے اور اس جملے کو ہم تل ابیب کے لئے "دھمکی" سمجھیں، تو ایسی دھمکی یا خطرہ پیدا کرنے میں ترکیہ کا کیا کردار رہا ہے اور اس کا کیا کردار ہو گا؟ کیا اردوان حکومت نے صہیونی ریاست پر اب تک کوئی "تاوان" ادا کرنے پر مجبور کیا ہے؟
اردوان کی قیادت میں ترکیہ اور اسرائیل کے سیاسی تعلقات میں ظاہری کشیدگی اور [حقیقت میں] ـ وقفے وقفے سے ـ معمول سازی (Normalization) کی کوششوں کے ادوار دیکھے گئے ہیں۔
اردوان نے متعدد بار بین الاقوامی فورمز اور اندرون ملک تقریروں میں اسرائیل پر غزہ میں "نسل کشی" کا الزام لگایا ہے، اسے "دہشت گرد ریاست" قرار دیا ہے اور حماس کو "آزادی کے جنگجو" کا عنوان دیا ہے۔


انھوں نے یہاں تک بھی خبردار کیا ہے کہ "اسرائیل غزہ اور لبنان کے بعد 'استنبول پر چڑھ دوڑنے' کا ارادہ رکھتا ہے۔"
ان "جارحانہ" الفاظ کے باوجود، اسرائیل کے ساتھ انقرہ کے تعلقات مکمل طور پر منقطع کرنے کے عملی اقدامات اکثر محدود اور علامتی رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2023 میں غزہ جنگ کے بعد، اردوان نے سخت مذمت کے باوجود کسی بھی جامع پابندی یا سفارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کرنے کا اعلان کرنے سے گریز کیا۔
اردوان کا مارچ 2022 میں اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کا والہانہ استقبال
ترک تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اردوان کے ایسے زیادہ تر بیانات "گھریلو مصرف" کے لئے یا مسلم رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے اور خاص طور پر ترکیہ کے اندر اپنے 'ووٹرز بیس' کو راضی رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔
ظاہری تناؤ کے ادوار کے برعکس ترکیہ-تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2022 میں، سفارتی سطح پر برسوں کے ظاہری بحران کے بعد دونوں ریاستوں کے سفیروں کا تقرر کیا گیا، اور سفارتی دوروں میں اضافہ ہؤا۔
ترکیہ نے حتی 'کشیدگی' کے عروج پر بھی اسرائیل اور لبنان یا اسرائیل اور شام کے درمیان ثالثی کے لئے بھی آمادگی کا اعلان کیا۔
سیکورٹی اور فوجی تعلقات: ظاہری تناؤ کے سائے میں گہرا تعاون
سیکورٹی تعاون انقرہ تل ابیب تعلقات کے سب سے زیادہ مستحکم اور سب سے زیادہ خفیہ شعبوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اس تعاون کی تفصیلات مکمل طور پر ظاہر نہیں کی جاتیں، لیکن رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 'ظاہری سیاسی کشیدگی' کے دور میں بھی حساس شعبوں میں مسلسل ہم آہنگی جاری رہی ہے۔ یہ تعاون بنیادی طور پر 'معلومات کے تبادلے' اور 'مشترکہ خطرات' کا مقابلہ کرنے کے گرد گھومتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ